سورة الحج - آیت 44

وَأَصْحَابُ مَدْيَنَ ۖ وَكُذِّبَ مُوسَىٰ فَأَمْلَيْتُ لِلْكَافِرِينَ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور مدین والوں نے بھی تو انبیا کو جھٹلایا تھا اور موسیٰ بھی جھٹلائے گئے تھے، تو میں نے کافروں کو تھوڑٰ مہلت دی، پھر میں نے انہیں پکڑ لیا، تو ان کی بد اعمالیوں پر میری نکیر کیسی تھی۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس میں نبی (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ نئی بات نہیں ہے پچھلی قومیں بھی اپنے پیغمبروں کے ساتھ یہی کچھ کرتی رہی ہیں اور میں بھی انہیں مہلت دیتا رہا۔ پھر جب ان کا وقت مہلت ختم ہوگیا تو انہیں تباہ برباد کر دیا گیا۔ اس میں تعریض وکنایہ ہے مشرکین مکہ کے لیے کہ تکذیب کے باوجود تم ابھی تک مؤاخذہ الہی سے بچے ہوئے ہو تو یہ نہ سمجھ لینا کہ ہمارا کوئی مؤاخذہ کرنے والا نہیں بلکہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے جو وہ ہر قوم کو دیا کرتا ہے لیکن اگر وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اطاعت وانقیاد کا راستہ اختیار نہیں کرتی تو پھر اسے ہلاک یا مسلمانوں کے ذریعے سے مغلوب اور ذلت ورسوائی سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ 2- یعنی کس طرح میں نے انہیں اپنی نعمتوں سے محروم کرکے عذاب وہلاکت سے دو چار کر دیا۔