سورة الحج - آیت 34

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے ہر گرو کے لیے قربانی کا دن (٢٠) مقرر کیا ہے، تاکہ اللہ نے انہیں جو جانور بطور روزی دیا ہے انہیں اللہ کا نام لے کر ذبح کریں، پس تمہارا معبود ایک اللہ ہے تو تم لوگ اسی کے سامنے جھکو اور اے نبی ! آپ عاجزی و انکساری اختیار کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- حلال ہونے سے مراد جہاں ان کا ذبح کرنا حلال ہوتا ہے۔ یعنی یہ جانور، مناسک حج کی ادائیگی کے بعد، بیت اللہ اور حرم مکی میں پہنچتے ہیں اور وہاں اللہ کے نام پر ذبح کر دئیے جاتے ہیں، پس مذکورہ فوائد کا سلسلہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ ایسے ہی حرم کے لئے قربانی دی جاتی ہے، تو حرم میں پہنچتے ہی ذبح کر دیئے جاتے ہیں اور فقراء مکہ میں ان کا گوشت تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ 2- مَنْسَكٌ، نَسَكَ، يَنْسُكُ کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ذبیحہ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نُسُكٌ ہے اس کے معنی اطاعت وعبادت کے بھی ہیں۔ کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر اللہ کی عبادت ہے،یا مَنْسِكٌ (سین کی فتح یا کسرے کے ساتھ) اسم ظرف ہے۔ مَوْضِعُ نَحْرٍ (ذبح کرنے کی جگہ) یا مَوْضِعُ عِبَادَةٍ ۔ اسی سے مناسک حج ہے یعنی وہ جگہیں، جہاں حج کے اعمال وارکان ادا کئے جاتے ہیں، جیسے عرفات، مزدلفہ، منٰی اور مکہ۔ مطلق ارکان واعمال حج کو بھی مناسک کہہ لیا جاتا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم پہلے بھی ہر مذہب والوں کے لئے ذبح کا یا عبادت کا یہ طریقہ مقرر کرتے آئے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہمارا نام لیں۔ یعنی بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں یا ہمیں یاد رکھیں۔