وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ (١٥) مقرر کردی، اور ان سے کہا کہ آپ کسی چیز کو بھی میرا شریک نہ ٹھہرائے، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے شرک و بت پرستی سے پاک رکھیے۔
1- یہ بدلہ ہے ان لوگوں کا جو مذکورہ گناہوں کے مرتکب ہوں گے۔ 2- یعنی بیت اللہ کی جگہ بتلا دی اور وہاں ہم نے ذریت ابراہیم (عليہ السلام) کو ٹھہرایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح (عليہ السلام) کی ویرانی کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ' سب سے پہلی مسجد جو زمین میں بنائی گئی، مسجد حرام ہے، اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصٰی تعمیر ہوئی ' (مسند احمد 5۔150، 166- 167 ومسلم کتاب المساجد) 3- یہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی غرض بیان کی کہ اس میں صرف میری عبادت کی جائے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین نے اس میں جو بت سجا رکھے ہیں جن کی وہ یہاں آکر عبادت کرتے ہیں یہ ظلم صریح ہے کہ جہاں صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہیے تھی وہاں بتوں کی عبادت کی جاتی ہے۔ 4- کفر بت پرستی اور دیگر گندگیوں اور نجاستوں سے۔ یہاں ذکر صرف نماز پڑھنے والوں کا کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں عبادت خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہیں، نماز میں رخ اس کی طرف ہوتا ہے اور طواف صرف اسی کے گرد کیا جاتا ہے۔ لیکن اہل بدعت نے اب بہت سی قبروں کا طواف بھی ایجاد کر لیا ہے اور بعض نمازوں کے لیے قبلہ بھی کوئی اور۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا