وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ
اور ہم نے لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد تمام آسمانی کتابوں میں لکھ (٣٨) دیا ہے کہ سرزمین کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے۔
1- زبور سے مراد یا تو زبور ہی ہے اور ذکر سے مراد پند ونصیحت جیسا کہ ترجمہ میں درج ہے یا پھر زبور سے مراد گذشتہ آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی پہلے لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے اور اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہونگے۔ زمین سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک جنت ہے اور بعض کے نزدیک ارض کفار۔ یعنی اللہ کے نیک بندے زمین میں اقتدار اور سرخرو رہے اور آئندہ بھی جب کبھی وہ اس صفت کے حامل ہوں گے، اس وعدہ الٰہی کے مطابق، زمین کا اقتدار انہی کے پاس ہوگا۔ اس لیے مسلمانوں کی محرومی اقتدار کی موجودہ صورت حال کسی اشکال کا باعث نہیں بننی چاہیے یہ وعدہ مشروط ہے صالحیت عباد کے ساتھ اور إِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوطُ کے مطابق جب مسلمان اس خوبی سے محروم ہوگئے تو اقتدار سے بھی محروم کردئیے گئے اس میں گویا حصول اقتدار کا طریقہ بتلایا گیا ہے اور وہ ہے صالحیت یعنی اللہ رسول کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا اور اس کے حدود وضابطوں پر کاربند رہنا۔