سورة البقرة - آیت 251

فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو انہوں نے اللہ کے حکم سے انہیں شکست دی، اور داود نے جالوت کو قتل کردیا، اور اللہ نے داود کو ملک و حکمت دیا، اور وہ جو چاہتے تھے انہیں سکھایا، اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ دفع نہ کرے (344) تو زمین میں فساد پھیل جائے، لیکن اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- حضرت داود (عليه السلام) بھی، جو ابھی پیغمبر تھے نہ بادشاہ، اس لشکر طالوت میں ایک سپاہی کے طور پر شامل تھے۔ ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جالوت کا خاتمہ کیا اور ان تھوڑے سے اہل ایمان کے ذریعے سے ایک بڑی قوم کو شکست فاش دلوائی۔ 2- اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داود (عليه السلام) کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی۔ حکمت سے بعض نے نبوت، بعض نے صنعت آہن گری اور بعض نے ان امور کی سمجھ مراد لی ہے، جو اس موقع جنگ پر اللہ تعالیٰ کی مشیت وارادے سے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ 3- اس میں اللہ کی ایک سنت الٰہی کا بیان ہے کہ وہ انسانوں کے ہی ایک گروہ کے ذریعے سے، دوسرے انسانی گروہ کے ظلم اور اقتدار کا خاتمہ فرماتا رہتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا اور کسی ایک ہی گروہ کو ہمیشہ قوت واختیار سے بہرہ ور کئے رکھتا تو یہ زمین ظلم وفساد سے بھر جاتی۔ اس لئے یہ قانون الٰہی اہل دنیا کے لئے فضل الٰہی کا خاص مظہر ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ حج کی آیت 38 اور 40 میں بھی فرمایا ہے۔