فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ
تو ہم نے ان کی دعا سن لی اور ان کی بیماری دور کردی اور ہم نے ان کے بال بچے انہیں دے دیئے، اور اپنی جانب سے رحم کرتے ہوئے انہی جیسے اور دیئے، اور تاکہ یہ چیز ہماری عبادت کرنے والوں کے لیے یادگار رہے۔
1- قرآن مجید میں حضرت ایوب (عليہ السلام) کو صابر کہا گیا ہے، (سورۂ ص:44) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں سخت آزمائشوں میں ڈالا گیا جن میں انہوں نے صبر شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ آزمائش اور تکلیفیں کیا تھیں، اس کی مستند تفصیل تو نہیں ملتی، تاہم قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں مال ودولت دنیا اور اولاد وغیرہ سے نوازا ہوا تھا، بطور آزمائش اللہ تعالٰی نے ان سے یہ سب نعمتیں چھین لیں، حتٰی کہ جسمانی صحت سے بھی محروم اور بیماریوں میں گھر کر رہ گئے۔ بالآخر کہا جاتا ہے کہ 8ا سال کی آزمائشوں کے بعد بارگاہ الٰہی میں دعا کی، اللہ نے دعا قبول فرمائی اور صحت کے ساتھ مال واولاد، پہلے سے دوگنا عطا فرمائے۔ (اس کی کچھ تفصیل صحیح ابن حبان (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی ایک روایت میں ملتی ہے ج4، ص244، ومجمع الزوائد8/208)، جس کا اظہار حضرت ایوب (عليہ السلام) نے کبھی نہیں کیا۔ البتہ دعا صبر کے منافی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالٰی نے اس کے لئے 'ہم نے قبول کر لی' کے الفاظ استعمال فرمائے۔