بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ
بلکہ (ابات یہ ہے کہ) ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو دنیاوی مال و متاع (١٨) سے بہرہ مند کیا، یہاں تک کہ انہوں نے اسی حال میں ایک لمبی عمر گزار لی (تو اپنی حقیقت بھول گئے) کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہم ان کی سرزمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے جارہے ہیں کیا پھر بھی وہی غالب ہوں گے۔
1- یعنی ان کی یا ان کے آبا واجداد، کی زندگیاں اگر عیش و راحت میں گزر گئیں تو کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں؟ اور آئندہ بھی انہیں کچھ نہیں ہوگا؟ نہیں بلکہ یہ چند روزہ زندگی کا آرام تو ہمارے اصول مہلت کا ایک حصہ ہے، اس سے کسی کو دھوکا اور فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ 2- یعنی ارض کفر بتدریج گھٹ رہی ہے اور دولت اسلام وسعت پذیر ہے۔ کفر کے پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے اور اسلام کا غلبہ بڑھ رہا ہے اور مسلمان علاقے پر علاقہ فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔ 3- یعنی کفر کو سمٹتا اور اسلام کو بڑھتا ہوا دیکھ کر بھی، کیا وہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غالب ہیں؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی وہ غالب نہیں، مغلوب ہیں، فاتح نہیں، مفتوح ہیں، معزز و سر فراز نہیں، ذلت اور خواری ان کا مقدر ہے۔