أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ
کیا اہل کفر نے سوچا نہیں (١٣) کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے، تو ہم نے دونوں کو الگ کردیا، اور ہر ذی روح کو ہم نے پانی سے پیدا کیا ہے، کیا وہ لوگ (پھر بھی) ایمان نہیں لائیں گے۔
1- اس سے رؤیت عینی نہیں، رؤیت قلبی مراد ہے۔ یعنی کیا انہوں نے غور وفکر نہیں کیا؟ یا انہوں نے جانا نہیں؟۔ 2- رَتْقٌ کے معنی، بند کے اور فَتْقٌ کے معنی پھاڑنے، کھولنے اور الگ الگ کرنے کے ہیں۔ یعنی آسمان و زمین، ابتدائے امر ہیں، باہم ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے۔ ہم نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا، آسمانوں کو اوپر کر دیا جس سے بارش برستی ہے اور زمین کو اپنی جگہ پر رہنے دیا، تاہم وہ پیداوار کے قابل ہوگئی۔ 3- اس سے مراد اگر بارش اور چشموں کا پانی ہے، تب بھی واضح ہے کہ اس کی روئیدگی ہوتی ہے اور ہر ذی روح کو حیات نو ملتی ہے اور اگر مراد نطفہ ہے، تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ ہر زندہ چیز کے وجود کے باعث وہ قطرہ آب ہے جو نر کی پیٹھ کی ہڈیوں سے نکلتا اور مادہ کے رحم میں جاکر قرار پکڑتا ہے۔