فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ
پس تم دونوں اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم دونوں تمہارے رب کے پیغامبر ہیں اس لیے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دو، اور انہیں عذاب نہ دو، ہم تمہارے پاس تمہارے رب کا معجزہ لے کر آئے ہیں، اور سلامتی ہو اس آدمی پر جو راہ حق کی پیروی کرے۔
1- یہ سلام تحیہ نہیں ہے، بلکہ امن وسلامتی کی طرف دعوت ہے۔ جیسے نبی (ﷺ) نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام مکتوب میں لکھا تھا، ”أَسْلِمْ تَسْلَمْ“ (اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا) اس طرح مکتوب کے شروع میں آپ نے ﴿وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى﴾ بھی تحریر فرمایا، (ابن کثیر) اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مکتوب یا مجلس میں مخاطب کرنا ہو تو اسے انہی الفاظ میں سلام کہا جائے، جو مشروط ہے ہدایت کے اپنانے کے ساتھ۔