أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ ۚ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي
کہ تم بچہ کو صندوق میں بند کردو پھر اس صندوق کو دریا میں ڈال دو تاکہ دریا کا بہاؤ اسے ساحل پر پہنچا دے، وہاں اسے وہ آدمی لے لے گا جو میرا دشمن ہے اور اس کا بھی دشمن ہے اور میں نے اپنی جانب سے آپ کے چہرے میں (لوگوں کے لیے) محبت پیدا کردی اور میں نے چاہا کہ میری خاص نگرانی میں آپ کی پرورش ہو۔
1- مراد فرعون ہے جو اللہ کا بھی دشمن اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کا بھی دشمن تھا۔ یعنی لکڑی کا وہ تابوت تیرتا ہواجب شاہی محل کے کنارے پہنچا تو اسے باہر نکال کر دیکھا گیا، تو اس میں ایک معصوم بچہ تھا، فرعون نے اپنی بیوی کی خواہش پر پرورش کے لئے شاہی محل میں رکھ لیا۔ 2- یعنی فرعون کے دل میں ڈال دی یا عام لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دی۔ 3- چنانچہ اللہ کی قدرت کا اور اس کی حفاظت ونگہبانی کا کمال اور کرشمہ دیکھئے کہ جس بچے کی خاطر، فرعون بیشمار بچوں کو قتل کروا چکا، تاکہ وہ زندہ نہ رہے، اسی بچے کو اللہ تعالٰی اس کی گود میں پلوا رہا ہے، اور ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، لیکن اس کی اجرت بھی اسی دشمن موسیٰ (عليہ السلام) سے وصول کر رہی ہے۔ (فَسُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ)