وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دے دو، اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں، تو انہیں اس بات سے نہ روکو (326) کہ وہ اپنے گذشتہ شوہروں سے دوبارہ شادی کرلیں، اگر وہ مشروع شرائط کے مطابق آپس میں راضی ہوجائیں، یہ نصیحت تم میں سے انہیں کی جا رہی ہے، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، یہ تمہارے لیے زیادہ پا کیزگی اور طہارت نفس کی بات ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم لوگ نہیں جانتے۔
1- اس میں مطلقہ عورت کی بابت ایک تیسرا حکم دیا جا رہا ہے وہ یہ کہ عدت گزرنے کے بعد (پہلی یا دوسری طلاق کے بعد) اگر سابقہ خاوند بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو تم ان کو مت روکو۔ نبی (ﷺ) کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ ہوا تو عورت کے بھائی نے انکار کردیا جس پر یہ آیت اتری (صحيح بخاري، كتاب النكاح ، باب لا نكاح إلا بولي) اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح نہیں کرسکتی، بلکہ اس کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ تب ہی اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو اپنا حق ولایت غلط طریقے سے استعمال کرنے سے روکا ہے۔ اس کی مزید تائید حدیث نبوی (ﷺ) سے ہوتی ہے :[ لا نِكَاحَ إلا بِوَلِيٍّ ] ’’ولی کی اجازت سے بغیر نکاح نہیں‘‘، (رواه الخمسة إلا النسائي إرواء الغليل ص۔ صححه الألباني) ایک اور روایت میں ہے۔ [ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ]، (حواله مذكور وصححه أيضا الألباني) جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا، پس اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔۔۔ (حوالہ مذکور) ان احادیث کو علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی، دیگر محدثین کی طرح، صحیح اور احسن تسلیم کیا ہے۔ فیض الباری،ج کتاب النکاح) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت کے ولیوں کو بھی عورت پر جبر کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کی رضامندی کو بھی ضرور ملحوظ رکھیں۔ اگر ولی عورت کی رضامندی کو نظرانداز کرکے زبردستی نکاح کردے، تو شریعت نے عورت کو بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ نکاح میں دونوں کی رضامندی حاصل کی جائے، کوئی ایک فریق بھی من مانی نہ کرے۔ اگر عورت من مانے طریقے سے ولی کی اجازت نظرانداز کرے گی تو وہ نکاح ہی صحیح نہیں ہوگا اور ولی زبردستی کرے گا اور لڑکی کے مفادات کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دے گا تو عدالت ایسے ولی کو حق ولایت سے محروم کرکے ولی ابعد کے ذریعے سے یا خود ولی بن کر اس عورت کے نکاح کا فریضہ انجام دے گی۔ ’’فَإِنِ اشْتَجَرُوا فالسُلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لا وَلِيَّ لَهَا‘‘ (إرواء الغليل)