ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا
پھر ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں) اللہ سے ڈرتے رہے تھے، اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا چھوڑ دیں گے۔
1- اس کی تفسیر صحیح حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جہنم کے اوپر پل بنایا جائے گا جس میں سے ہر مومن وکافر کو گزرنا ہوگا۔ مومن تو اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بدیر گزر جائیں گے، کچھ تو پلک جھپکنے میں، کچھ بجلی اور کچھ ہوا کی طرح، کچھ پرندوں کی طرح اور کچھ عمدہ گھوڑوں اور دیگر سواریوں کی طرح گزر جائیں گے یوں کچھ بالکل صحیح سالم، کچھ زخمی تاہم پل عبور کرلیں گے کچھ جہنم میں گر پڑیں گے جنہیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیا جائے گا۔ لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے اور سب جہنم میں گر پڑیں گے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ جس کے تین بچے بلوغت سے پہلے وفات پا گئے ہوں، اسے آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم حلال کرنے کے لئے۔ (البخاری- كتاب الجنائز، ومسلم كتاب البر) یہ قسم وہی ہے جسے اس آیت میں﴿ حَتْمًا مَقْضِيًّا﴾ (قطعی فیصل شدہ امر) کہا گیا ہے، یعنی اس کا ورود جہنم میں صرف پل پر گزرنے کی حد تک ہی ہوگا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر وایسر التفاسیر)