سورة مريم - آیت 41
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب
اور آپ قرآن میں ابراہیم کو یاد (٢٣) کیجیے وہ بیشک سچے کردار کے اور نبی تھے۔
تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
1- صِدِّيقٌ صِدْقٌ (سچائی سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول وعمل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام، نبوت کے بعد سب سے اعلٰی ہے ہر نبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لئے وہ صدیق بھی ہوتا ہے۔ تاہم ہر صدیق، نبی نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم کو صدیقہ کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تقویٰ وطہارت اور راست بازی میں بہت اونچے مقام پر فائز تھیں تاہم نبیہ نہیں تھیں۔ امت محمدیہ میں بھی صدیقین ہیں۔ اور ان میں سرفہرست حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہیں جو انبیاء کے بعد امت میں خیر البشر تسلیم کئے گئے ہیں۔ رضی الله عنہ۔