فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
دنیوی اور اخروی امور کے بارے میں اور آپ سے یتیموں (309) کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ جس میں ان کے مال کی اصلاح ہو، وہی بہتر ہے، اور اگر تم اپنا کھانا، ان کے کھانے کے ساتھ ملا دو گے (تو کوئی حرج نہیں) کیونکہ وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یتیم کے مال کو کون خراب کرنے والا ہے اور کون اس کی اصلاح کرنے والا ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت و پریشانی میں ڈال دیتا، بے شک اللہ زبردست اور بڑا صاحب حکمت ہے
1- جب یتیموں کا مال ظلما کھانے والوں کے لئے وعید نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رضي الله عنه) ڈر گئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کردی حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی، تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہوجاتی، اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس وعید کے مستحق نہ قرار پاجائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر ) 2- یعنی تمہیں بغرض اصلاح وبہتری بھی، ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔