يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
لوگ آپ سے شراب اور جوے کے بارے میں سوال (307) کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے، اور لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، اور ان کے گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑے ہیں، اور آپ لوگ بوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ (308) کریں، آپ کہہ دیجئے کہ جو (تمہاری ضروری اخراجات سے) زیادہ ہو اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی آیتوں کو تمہارے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم غور وفکر کرسکو
1- بڑا گناہ تو دین کے اعتبار سے ہے۔ 2- فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے، مثلاً شراب سے وقتی طور پر بدن میں چستی ومستعدی اور بعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے۔ جنسی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے، جس کے لئے اس کا استعمال عام ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی خرید وفروخت نفع بخش کاروبار ہے۔ جُوا میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے، لیکن یہ فائدے ان نقصانات ومفاسد کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ (ان کا گناہ، ان کے فائدوں سے بہت بڑا ہے۔) اس طرح اس آیت میں شراب اور جوا کو حرام توقرار نہیں دیا گیا، تاہم اس کے لئے تمہید باندھ دی گئی ہے۔ اس آیت سے ایک بہت اہم اصول یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز میں چاہے وہ کتنی بھی بری ہو،کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً ریڈیو، ٹی وی اور دیگر اس قسم کی ایجادات ہی اور لوگ ان کے بعض فوائد بیان کرکے اپنے نفس کو دھوکہ دے لیتے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا تقابل کیا ہے۔ خاص طور پر دین و ایمان اور اخلاق و کردار کے لحا ظ سے۔ اگر دینی نقطۂ نظر سے نقصانات و مفاسد زیادہ ہیں تو تھوڑے سے دنیوی فائدوں کی خاطر اسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ 3- اس معنی کے اعتبار سے یہ اخلاقی ہدایت ہے، یا پھر یہ حکم ابتدائے اسلام میں دیا گیا، جس پر فرضیت زکٰوۃ کے بعد عمل ضروری نہیں رہا، تاہم افضل ضرور ہے، یا اس کے معنی ہیں ”مَا سَهُلَ وَتَيَسَّرَ وَلَمْ يَشُقْ عَلَى الْقَلْبِ“ (فتح القدير) ”جو آسان اور سہولت سے ہو اور دل پر شاق (گراں) نہ گزرے“ اسلام نے یقیناً انفاق کی بڑی ترغیب دی ہے۔ لیکن یہ اعتدال ملحوظ رکھا ہے کہ ایک تو اپنے زیرکفالت افراد کی خبرگیری اور ان کی ضروریات کو مقدم رکھنے میں حکم دیا ہے۔ دوسرے، اس طرح خرچ کرنے سے بھی منع کیا ہے کہ کل کو تمہیں یا تمہارے اہل خاندان کو دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑ جائے۔