سورة الكهف - آیت 63

قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

خادم نے کہا، آپ کو عجیب بات بتاؤں کہ جب ہم دونوں چٹان پر ٹیک لگائے آرام کر رہے تھے، تو میں مچھلی کی بات بھول گیا اور صرف شیطان نے مجھے بھلا دیا کہ اس کا ماجرا آپ سے بیان کروں، وہ تو عجیب انداز میں سمندر میں اپنا راستہ بنا کر چلی گئی تھی۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی اور اس کے لئے اللہ تعالٰی نے سمندر میں سرنگ کی طرح راستہ بنا دیا۔ حضرت یوشع (عليہ السلام) نے مچھلی کو سمندر میں جاتے اور راستہ بنتے ہوئے دیکھا، لیکن حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو بتلانا بھول گئے۔ حتٰی کہ آرام کرکے وہاں سے پھر سفر شروع کر دیا، اس دن اور اس کے بعد رات سفر کر کے، جب دوسرے دن حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو تھکاوٹ اور بھوک محسوس ہوئی تو اپنے جوان ساتھی سے کہا لاؤ بھئی کھانا، کھانا کھالیں، اس نے کہا: مچھلی تو، جہاں ہم نے پتھر سے ٹیک لگا کر آرام کیا تھا، وہاں زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی تھی اور وہاں عجب طریقے سے اس نے اپنا راستہ بنایا تھا، جس کا میں آپ سے تذکرہ کرنا بھول گیا۔ شیطان نے مجھے بھلا دیا۔