وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَىٰ مَا أَنفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
اور اس کے تمام پھلوں کو آفت (٢١) نے گھیر لیا، پس ان پھلوں پر جتنا مال خرچ کیا تھا، اس پر کف افسوس ملنے لگا، درآنحالیکہ وہ باغ اپنے چھپروں سمیت گرا پڑا تھا، اور وہ آدمی کہنے لگا اے کاش ! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہوتا۔
1- یہ کنایہ ہے ہلاکت و فنا سے۔ یعنی سارا باغ ہلاک کر ڈالا۔ 2- یعنی باغ کی تعمیر و اصلاح اور کاشتکاری کے اخراجات پر کف افسوس ملنے لگا۔ ہاتھ ملنا کنایہ، یہ ہے ندامت سے۔ 3- یعنی جن چھتوں، چھپروں پر انگوروں کی بیلیں تھیں، وہ سب زمین پر آرہیں اور انگوروں کی ساری فصل تباہ ہوگئی۔ 4- اب اسے احساس ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اس کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اس کے احکام کا انکار کرنا اور اس کے مقابلے میں سرکشی، کسی طرح بھی ایک انسان کے لئے زیبا نہیں، لیکن اب حسرت وافسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔