وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
اور جو لوگ (١٧) صبح و شام اپنے رب کو اس کی رضا جوئی کے لیے پکارتے رہتے ہیں ان کے ساتھ اپنے آپ کو روکے رکھیئے اور دنیاوی زندگی زندگی کی زیب و زینت کی خواہش میں آپ کی آنکھیں ان سے پھر نہ جائیں اور آپ اس آدمی کی پیروی نہ کیجیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کی اتباع کرتا ہے، اور جس کی نافرمانی کا معاملہ حد سے تجاوز کرگیا ہے۔
1- یہ وہی حکم ہے جو اس کے قبل سورہ الا نعام: 52 میں گزر چکا ہے۔ مراد ان سے وہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ہیں جو غریب اور کمزور تھے۔ جن کے ساتھ بیٹھنا اشراف قریش کو گوارا نہ تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی نبی (ﷺ) کے ساتھ تھے، میرے علاوہ بلال، ابن مسعود، ایک ہذلی اور دو صحابی (رضی الله عنہم) اور تھے۔ قریش مکہ نے خواہش ظاہر کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بات سنیں، نبی (ﷺ) کے دل میں آیا کہ چلو شاید میری بات سننے سے ان کے دلوں کی دنیا بدل جائے۔ لیکن اللہ تعالٰی نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع فرما دیا (صحيح مسلم- فضائل الصحابة، باب فضل سعد بن أبي وقاص) 2- یعنی ان کو دور کر کے آپ اصحاب شرف واہل غنی کو اپنے قریب کرنا چاہتے ہیں۔ 3- فُرُطًا اگر افراط سے ہو تو معنی ہوں گے حد سے متجاوز اور اگر تفریط سے ہو تو معنی ہوں گے کہ ان کا کام تفریط پر مبنی ہے جس کا نتیجہ ضیاع اور ہلاکت ہے۔