وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا
اور ہم نے اسی طرح انہیں (ایک بار) اٹھایا (١٢) تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں ان میں سے ایک نے پوچھا کہ تم سب (اس حال میں) کتنے دن رہے ہو؟ دوسروں نے جواب دیا کہ ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے ہیں، پھر کہا کہ تمہارا رب زیادہ جانتا ہے کہ تم کتنے دن رہے، تم اپنا ایک آدمی چانید کے اس سکہ کے ساتھ شہر بھیجو، پس وہ دیکھے کہ وہاں سب سے پاکیزہ کھانا کون سا ہے، تو اس میں سے تمہارے لیے کچھ کھانا (خرید کر) لے آئے، اور خاموشی کے ساتھ کام کرلے، اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔
1- یعنی جس طرح ہم نے انہیں اپنی قدرت سے سلا دیا تھا، اسی طرح تین سو نو سال کے بعد ہم نے انہیں اٹھا دیا اور اس حال میں اٹھایا کہ ان کے جسم اسی طرح صحیح تھے، جس طرح تین سو سال قبل سوتے وقت تھے، اسی لئے آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے سوال کیا۔ 2- گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے، صبح کا پہلا پہر تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا، یوں وہ سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس سے بھی کم، دن کا کچھ حصہ سوئے رہے۔ 3- تاہم کثرت نوم کی وجہ سے وہ سخت تردد میں رہے اور بالآخر معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا کہ وہی صحیح مدت جانتا ہے۔ 4- بیدار ہونے کے بعد، خوراک جو انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس کا سر وسامان کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔ 5- احتیاط اور نرمی کی تاکید اسی اندیشے کے پیش نظر کی، جس کی وجہ سے وہ شہر سے نکل کر ایک ویرانے میں آئے تھے۔ اسے تاکید کی کہ کہیں اس کے رویے سے شہر والوں کو ہمارا علم نہ ہو جائے اور کوئی نئی افتاد ہم پر نہ آپڑے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔