وَرَبَطْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِهِ إِلَٰهًا ۖ لَّقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا
اور ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط (٧) رکھا جب وہ (دعوت حق کے لیے) کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی دوسرے معبود کی ہرگز عبادت نہیں کریں گے، ورنہ ہم حقیقت سے دور کی بات کہیں گے۔
1- یعنی ہجرت کرنے کی وجہ سے اپنے خویش واقارب کی جدائی اور عیش وراحت کی زندگی سے محرومی کا جو صدمہ انہیں اٹھانا پڑا، ہم نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا تاکہ وہ صدمات کو برداشت کرلیں۔ نیز حق گوئی کا فریضہ بھی جرأت اور حوصلے سے ادا کر سکیں۔ 2- اس قیام سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک وہ طلبی ہے، جو بادشاہ کے دربار میں ان کی ہوئی اور بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر انہوں نے توحید کا یہ وعظ بیان کیا، بعض کہتے ہیں کہ شہر سے باہر آپس میں ہی کھڑے، ایک دوسرے کو توحید کی بات سنائی، جو فرداً فرداً اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں ڈالی گئی اور یوں اہل توحید باہم اکٹھے ہوگئے۔ 3- شَطَطًا کے معنی جھوٹ کے یا حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔