أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا
آپ زوال آفتاب کے وقت سے رات کی تاریکی تک نماز قائم (٤٧) کیجیے، اور فجر کی نماز میں قرآن پڑھیئے، بیشک فجر میں قرآن پڑھنے کا وقت فرشتوں کی حاضری کا وقت ہوتا ہے۔
1- دُلُوكٌ کے معنی زوال کے اور غَسَق کے معنی تاریکی کے ہیں۔ آفتاب کے ڈھلنے کے بعد، ظہر اور عصر کی نماز اور رات کی تاریکی تک سے مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور قرآن الفجر سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن، نماز کے معنی میں ہے۔ اس کو قرآن سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر میں قراءت لمبی ہوتی ہے۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں فرض نمازوں کا اجمالی ذکر آجاتا ہے۔ جن کی تفیصلات احادیث میں ملتی ہیں اور جو امت کے لئے عملی تواتر سے بھی ثابت ہیں۔ 2- یعنی اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں بلکہ دن کے فرشتوں اور رات کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے (صحیح بخاری، تفسیرسورہ بنی اسرائیل) ایک اور حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالٰی ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ خود خوب جانتا ہے ”تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟“ فرشتے کہتے ہیں ”جب ہم ان کے پاس گئے تھے، اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس سے آئے ہیں تو انہیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں“۔ ( البخاری كتاب المواقيت، باب فضل صلاة العصر ومسلم باب فضل صلاتي الصبح والعصر والمحافظة عليهما )