سورة البقرة - آیت 197

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

حج کے چند معلوم مہینے (282) ہیں، جس نے ان مہینوں میں اپنے اوپر حج کو فرض کرلیا وہ اثنائے حج جماع اور اس کے متعلقات، گناہ اور جنگ و جدال سے اجتناب کرے، اور تم جو نیکی بھی کرو گے اللہ سے جانتا ہے اور زاد راہ (283) (سفر کا خرچ) لے لیا کرو، بے شک سب سے اچھا زاد راہ سوال سے بچنا ہے، اور اے عقل والو، مجھ سے ڈرتے رہو۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-اور یہ ہیں شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن۔ مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے، لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا ہے، اس لئے اس کا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر ) مسئلہ : حج قران یا افراد کا احرام اہل مکہ، مکہ کے اندر سے ہی باندھیں گے۔ البتہ حج تمتع کی صورت میں عمرے کے احرام کے لئے حرم سے باہر حل میں جانا ان کے لئے ضروری ہے۔ (فتح الباري ، كتاب الحج وأبواب العمرة وموطأ إمام مالك) اسی طرح آفاقی لوگ حج تمتع میں ذوالحجہ کو مکہ سے ہی احرام باندھیں گے۔ البتہ بعض علما کے نزدیک اہل مکہ کو عمرے کے احرام کے لئے حدود حرم سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے وہ ہر طرح کے حج اور عمرے کے لئے اپنی اپنی جگہ سے ہی احرام باندھ سکتے ہیں۔ تنبیہ : حافظ ابن القیم نے لکھا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے قول وعمل سے صرف دو قسم کے عمرے ثابت ہیں۔ ایک وہ جو حج تمتع کے ساتھ کیا جاسکتا ہے اور دوسرا وہ عمرہ مفردہ جو ایام حج کے علاوہ صرف عمرے کی نیت سے ہی سفر کرکے کیا جائے۔ باقی حرم سے جاکر کسی قریب ترین حل سے عمرے کے لئے احرام باندھ کر آنا غیرمشروع ہے۔ (الا یہ کہ جن کے احوال وظروف حضرت عائشہ جیسے ہوں) (زاد المعاد ج 2 طبع جدید) نوٹ : حدود حرم سے باہر کے علاقے کو حل اور بیرون مکہ سے آنے والے حجاج کو آفاقی کہا جاتا ہے۔ 2- صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حدیث ہے [ مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمّهُ ] (صحيح بخاري ، كتاب المحصر، باب قول الله عز وجل ﴿فَلَا رَفَثَ ﴾) ”جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق وفجور سے بچا، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے، جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔“ 3- تقویٰ سے مراد یہاں سوال سے بچنا ہے، بعض لوگ بغیر زاد راہ لئے حج کے لئے گھر سے نکل پڑتے اور کہتے کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے۔ اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زاد راہ لینے کی تاکید فرمائی۔