قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
آپ کہہ دیجیے کہ اس قرآن کو جبریل نے میرے رب کے پاس سے برحق نازل کیا ہے، تاکہ یہ ایمان والوں کو ثابت قدم بنائے اور یہ مسلمانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ اور ہر خیر کی خوشخبری دینے والا ہے۔
1- یعنی یہ قرآن محمد کا اپنا گھڑا ہوا نہیں بلکہ اسے حضرت جبرائیل (عليہ السلام) جیسے پاکیزہ ہستی نے سچائی کے ساتھ رب کی طرف سے اتارا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے،﴿نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الأَمِينُ، عَلَى قَلْبِكَ﴾ (الشعراء :193 ،194) ”اسے الروح الامین (جبرائیل علیہ السلام) نے تیرے دل پر اتارا ہے“۔ 2- اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ منسوخ کرنے والا اور منسوخ دونوں رب کی طرف سے ہیں۔ علاوہ ازیں منسوخی کی مصلحتیں بھی جب ان کے سامنے آتی ہیں تو ان کے اندر مزید ثبات قدمی اور ایمان میں رسوخ پیدا ہوتا ہے۔ 3- اور یہ قرآن مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت کا ذریعہ ہے، کیونکہ قرآن بھی بارش کی طرح ہے، جس سے بعض زمینیں خوب شاداب ہوتی ہیں اور بعض میں کانٹے دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں اگتا۔ مومن کا دل صاف اور شفاف ہے جو قرآن کی برکت سے اور ایمان کے نور سے منور ہو جاتا ہے اور کافر کا دل زمین شور کی طرح ہے جو کفر وضلالت کی تاریکیوں سے بھرا ہوا ہے، جہاں قرآن کی ضیا پاشیاں بھی بے اثر رہتی ہیں۔