سورة النحل - آیت 92

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور تم لوگ اس عورت کی مانند نہ ہوجاؤ جس نے اپنا دھاگہ (٥٨) مضبوط کاتنے کے بعد ریزہ ریزہ کر ڈالا (ایسا نہ ہو) کہ تم لوگ اپنی قسموں کو اپنے درمیان (دھوکہ دہی کا ذریعہ) بناؤ، اس لیے کہ اب ایک گروہ دوسرے گروہ سے طاقتور ہوگیا ہے، بیشک اللہ تمہیں اس کے ذریعہ آزمانا چاہتا ہے اور قیامت کے دن وہ یقینا تمہارے سامنے اس بات کو کھول کر رکھ دے گا جس میں تم آپس میں اختلاف کرتے تھے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی مؤکد بہ حلف عہد کو توڑ دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی عورت سوت کاتنے کے بعد اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ یہ تمثیل ہے۔ 2- یعنی دھوکہ اور فریب دینے کا ذریعہ بناؤ۔ 3- أربیٰ کے معنی اکثر کے ہیں، یعنی جب تم دیکھو کہ اب تم زیادہ ہوگئے ہو تو اپنے گمان سے حلف توڑ دو، جب کہ قسم اور معاہدے کے وقت وہ گروہ کمزور تھا، لیکن کمزوری کے باوجود وہ مطمئن تھا کہ معاہدے کی وجہ سے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ لیکن تم عذر اور نقص عہد کر کے نقصان پہنچاؤ۔ زمانہء جاہلیت میں اخلاقی پستی کی وجہ سے اس قسم کی عہد شکنی عام تھی، مسلمانوں کو اس اخلاقی پستی سے روکا گیا ہے۔