سورة الفاتحة - آیت 2

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہاں کا پالنے والا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اَلْحَمْدُ میں ”ال“ استغراق یا اختصاص کے لئے ہے، یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، یا اس کے لئے خاص ہیں، کیوں کہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی کے اندر کوئی خوبی، حسن یا کمال ہے تو وہ بھی الله تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اس لئے حمد (تعریف) کا مستحق بھی وہی ہے۔ ”اللہ“ یہ اللہ کا ذاتی نام ہے، اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ الْحَمْدُ للهِ یہ کلمہ شکر ہے جس کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں [ لا إِلَهَ إلا اللهُ أَفْضَلُ الذِّكْرِ اور الْحَمْدُ للهِ کو أَفْضَلُ الدُّعَاءِ ] کہا گیا ہے۔ (ترمذی، نسائی وغیرہ) صحیح مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے [ الْحَمْدُ للهِ تَمْلأُ الْمِيزَانَ ] ”الْحَمْدُ للهِ میزان کو بھر دیتا ہے۔“ اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔ (صحیح مسلم) ۔ 2- رَبِّ، اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے، جس کے معنی ہیں ہر چیز کو پیدا کرکے اس کی ضروریات مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کا استعمال بغیر اضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ عَالَمِينَ عَالَمٌ (جہان) کی جمع ہے۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعے کو عالم کہا جاتا ہے، اسی لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربوبیت کاملہ کے اظہار کے لئے عالم کی بھی جمع لائی گئی ہے، جس سے مراد مخلوقات کی الگ الگ جنسیں ہیں۔ مثلاً عالم جن، عالم انس، عالم ملائکہ اور عالم وحوش وطیور وغیرہ۔ ان تمام مخلوقات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں، لیکن رَبِّ الْعَالَمِينَ سب کی ضروریات، ان کے احوال وظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیا فرماتا ہے۔