وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ
اور انہیں جہاں پاؤ قتل کرو، اور انہیں اس شہر سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا، اور فتنہ برپا کرنا تو قتل کرنے سے زیادہ نقصان دہ ہے، اور مسجد حرام کے پاس ان سے قتال نہ کرو، یہاں تک کہ وہ تم سے وہاں قتال کرنے میں پہل کریں، پس اگر وہ تم سے قتال کریں تو تم انہیں قتل کرو، کافروں کی یہی سزا ہے
1-مکہ میں مسلمان چوں کہ کمزور اور منتشر تھے، اس لئے کفار سے قتال ممنوع تھا، ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ساری قوت مدینہ میں مجتمع ہوگئی تو پھر ان کو جہاد کی اجازت دے دی گئی۔ ابتداء میں آپ صرف ان ہی سے لڑتے جو مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کرتے، اس کے بعد اس میں مزید توسیع کردی گئی اور مسلمانوں نے حسب ضرورت کفار کے علاقوں میں بھی جا کر جہاد کیا۔ قرآن کریم نے﴿اعْتِدَاءٌ﴾ (زیادتی کرنے) سے منع فرمایا، اس لئے نبی کریم (ﷺ) اپنے لشکر کو تاکید فرماتے کہ خیانت، بدعہدی اور مثلہ نہ کرنا، نہ بچوں، عورتوں اور گرجوں میں مصروف عبادت درویشوں کو قتل کرنا۔ اسی طرح درختوں کے جلانے اور حیوانات کو بغیر کسی مصلحت کے مارنے سے بھی منع فرماتے (ابن کثیر۔ بحوالہ صحیح مسلم وغیرہ) ﴿حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ﴾ (جہاں بھی پاؤ) کا مطلب ہے ”تَمَكَّنْتُمْ مِنْ قِتَالِهِم“ ان کو قتل کرنے کی قدرت تمہیں حاصل ہوجائے (ایسرالتفاسیر) ﴿مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾ یعنی جس طرح کفار نے تمہیں مکہ سے نکالا تھا، اسی طرح تم بھی ان کو مکہ سے نکال باہر کرو۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے انہیں مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔ فتنہ سے مراد، کفر وشرک ہے۔ یہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے، اس لئے اس کو ختم کرنے کے لئے جہاد سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ 2- حدود حرم میں قتال منع ہے، لیکن اگر کفار اس کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے لڑیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔