يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
جو بری خبر اسے دی گئی ہے اس کی وجہ سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے (سوچتا ہے) کیا ذلت و رسوائی کے باوجود اسے اپنے پاس رکھے، یا مٹی میں ٹھونس دے، آگاہ رہو کہ ان کا فیصلہ بڑا برا ہے۔
1- یعنی لڑکی کی ولادت کی خبر سن کر ان کا تو یہ حال ہوتا ہے جو مذکور ہوا، اور اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ کیسا برا یہ فیصلہ کرتے ہیں، یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالٰی بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکی کو حقیر اور کم تر سمجھتا ہے، نہیں اللہ کے نزدیک لڑکے اور لڑکی میں کوئی تمیز نہیں ہے، نہ جنس کی نبیاد پر حقارت اور برتری کا تصور اس کے ہاں ہے۔ یہاں تو صرف عربوں کی اس نا انصافی اور سراسر غیر معقول رویے کی وضاحت مقصود ہے، جو انہوں نے اللہ کے ساتھ اختیار کیا تھا، درآں حالیکہ اللہ کی برتری اور فوقیت کے وہ بھی قائل تھے۔ جس کا منطقی نتیجہ تو یہ تھا کہ جو چیز یہ اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اللہ کے لیے بھی اسے تجویز نہ کرتے لیکن انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ یہاں صرف اسی نا انصافی کی وضاحت کی گئی ہے۔