أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
یہ روزے گنتی کے چند ایام ہیں، اگر تم میں سے کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو اتنے دن گن کر بعد میں روزہ رکھ لے، اور جنہیں روزے رکھنے میں مشقت اٹھانی پڑتی ہو، وہ بطور فدیہ ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، اور جو کوئی اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور (مشقت برداشت کرتے ہوئے) روزہ رکھ لینا تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم علم رکھتے ہو
1-یہ بیمار اور مسافر کو رخصت دے دی گئی ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے ہوں، وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کرلیں۔ 2- يُطِيقُونَهُ کا ترجمہ يتَجَشَّمُونَهُ (نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں) کیا گیا ہے (یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، امام بخاری نے بھی اسے پسند کیا ہے) یعنی جو شخص زیادہ بڑھاپے یا ایسی بیماری کی وجہ سے، جس سے شفایابی کی امید نہ ہو، روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرے، وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دے، لیکن جمہور مفسرین نے اس کا ترجمہ (طاقت رکھتے) ہیں ہی کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں روزے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ روزہ نہ رکھیں تو اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دے دیا کریں۔ لیکن بعد میں ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ کے ذریعے اسے منسوخ کرکے ہر صاحب طاقت کے لئے روزہ فرض کردیا گیا، تاہم زیادہ بوڑھے، دائمی مریض کے لئے اب بھی یہی حکم ہے کہ وہ فدیہ دے دیں اور ”حَامِلَةٌ“ (حمل والی) اور ”مُرْضِعَةٌ“ (دودھ پلانے والی) عورتیں اگر مشقت محسوس کریں تو وہ مریض کے حکم میں ہوں گی یعنی وہ روزہ نہ رکھیں اور بعد میں روزے کی قضا دیں (تحفة الأحوذي شرح ترمذي) 3- جو خوشی سے ایک مسکین کی بجائے دو یا تین مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔