وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے غھیکرے سے پیدا (١٦) کیا ہے، جو سڑی ہوئی مٹی کا بنا تھا۔
1- مٹی کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام ہیں، خشک مٹی، تراب، بھیگی ہوئی طین، گوندھی ہوئی بدبودار ﴿حَمَإٍ مَسْنُونٍ﴾ یہ حَمَإٍ مَسْنُونٍ خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو صَلْصَالٍ اور جب آگ سے پکا لیا جائے تو فَخَّارٌ (ٹھیکری) کہلاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے انسان کی تخلیق کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم خاکی کا پتلا حَمَأٍ مَسْنُونٌ (گوندھی ہوئی سڑی ہوئی، بدبودار) مٹی سے بنایا گیا، جب وہ سوکھ کر کھن کھن کرنے لگا (یعنی صلصال) ہو گیا۔ تو اس میں روح پھونکی گئی، اسی طرح صَلصَالِ کو قرآن میں دوسری جگہ كَالْفَخَّارِ (فخار کی ماند کہا گیا ہے ﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ﴾ (الرحمن:14) ”پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا“۔