قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
ان کے رسولوں نے کہا، کیا تمہیں اللہ کے بارے میں شبہ (١٠) ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، وہ تمہیں اپنی طرف اس لیے بلاتا ہے تاکہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے اور ایک وقت مقرر تک تمہیں مہلت دے، انہوں نے کہا کہ تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، چاہتے ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جن کی ہمارے آبا و اجداد عبادت کرتے تھے، اس لیے تم ہمارے سامنے (اپنی صداقت) کی کوئی دلیل پیش کرو۔
1- یعنی تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمان و زمین کا خالق ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایمان وتوحید کی دعوت بھی صرف اس لئے دے رہا ہے کہ تمہیں گناہوں سے پاک کر دے۔ اس کے باوجود تم اس خالق ارض وسماء کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس کی دعوت سے تمہیں انکار ہے؟۔ 2- یہ وہی اشکال ہے جو کافروں کو پیش آتا رہا کہ انسان ہو کر کس طرح کوئی وحی الٰہی اور نبوت و رسالت کا مستحق ہو سکتا ہے؟۔ 3- یہ دوسری رکاوٹ ہے کہ ہم ان معبودوں کی عبادت کس طرح چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے ہیں؟ جب کہ تمہارا مقصد ہمیں ان کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت پر لگانا ہے۔ 4- دلائل ومعجزات تو ہر نبی کے ساتھ ہوتے تھے، اس سے مراد ایسی دلیل یا معجزہ ہے جس سے دیکھنے کے وہ آرزومند ہوتے تھے جیسے مشرکین مکہ نے حضور (ﷺ) سے مختلف قسم کے معجزات طلب کئے تھے، جس کا تذکرہ بنی اسرائیل میں آئے گا۔