أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
کیا تمہیں ان قوموں کی خبریں (٩) نہیں پہنچیں ہیں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، یعنی قوم نوح اور عاد اور ثمود کی خبریں، اور ان لوگوں کی خبریں جو ان کے بعد دنیا میں پائے گئے، انہیں صرف اللہ جانتا ہے، ان کے انبیاء ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے، تو انہوں نے بات کرنے سے انہیں روک دیا اور کہا کہ تم جو (دین) دے کر بھیجے گئے ہو اس کا ہم انکار کرتے ہیں، اور جو دعوت تم ہمارے سامنے پیش کر رہے ہو اس کی صداقت کے بارے میں ہمارے دلوں میں گہرا شک و شبہ ہے۔
1- مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں مثلاً (1)- انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہوں میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں، (2)۔ انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو،(3)۔ انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر استہزاءً اور تعجب کے طور پر رکھ لیے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ (4)۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے رسولوں کے مونہوں پر رکھ کر کہا خاموش رہو،۔(5)۔ بطور غیظ وغضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لے لیے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے ﴿عَضُّوا عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ﴾ (آل عمران:119)۔ ”وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ وغضب سے کاٹتے ہیں“۔ امام شوکانی اور امام طبری نے اسی آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔ 2- مُرِيبٌ یعنی ایسا شک، کہ جس سے نفس سخت قلق اور اضطراب میں مبتلا ہے۔