وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اور ہم نے موسیٰ کو اپنے معجزات دے کر بھیجا اور کہا کہ آپ اپنی قوم کو ظلمتوں سے نکال کر روشنی (٥) میں پہنچائیے اور قوموں پر اللہ کی جانب سے نازل شدہ عذاب کے واقعات سنا کر انہیں نصیحت کیجیے، بیشک ان واقعات میں صبر و شکر کرنے والے ہر شخص کے لیے نشانیاں ہیں۔
1- یعنی جس طرح اے محمد (ﷺ) ہم نے آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں۔ اسی طرح ہم نے موسیٰ (عليہ السلام) کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تاکہ وہ انہیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کریں۔ آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو موسیٰ (عليہ السلام) کو عطا کئے گئے تھے، یا وہ نو معجزات ہیں جن کا ذکر سورہ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔ 2- اَ یَّامَ اللّٰہِ سے مراد اللہ کے وہ احسنات ہیں جو بنی اسرائیل پر کئے گئے جن کی تفصیل پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ یا ایام وقائع کے معنی میں ہے، یعنی وہ واقعات ان کو یاد دلا جن سے وہ گزر چکے ہیں جن میں ان پر اللہ تعالٰی کے خصوصی انعامات ہوئے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں بھی آرہا ہے۔ 3- صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اور ایمان کا مدار ان پر ہے، اس لئے یہاں صرف ان دو کا تذکرہ کیا گیا ہے دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبار، بہت صبر کرنے والا، شکور، بہت شکر کرنے والا اور صبر کو شکر پر مقدم کیا ہے اس لئے کہ شکر، صبر ہی کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا "مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالٰی اس کے لئے جس امر کا بھی فیصلہ کرے، وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے "۔(صحيح مسلم، كتاب الزهد، باب المؤمن أمره كله خير)