حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ
یہاں تک کہ جب انبیاء پر ناامیدی (٩٧) چھانے لگی، اور ان کی قوموں نے سمجھا کہ عذاب کا وعدہ جھوٹا تھا، تو ہماری مدد ان کے پاس آگئی، پھر ہم نے جسے چاہا نجات دی، اور مجرم قوموں سے ہامرا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا ہے۔
1- یہ مایوسی اپنی قوم کے ایمان لانے سے ہوئی۔ 2- قرأت کے اعتبار سے اس آیت کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن سب سے مناسب مفہوم یہ ہے کہ ظَنُّوا کا فاعل قوم کفار کو قرار دیا جائے یعنی کفار عذاب کی دھمکی پر پہلے تو ڈرے لیکن جب زیادہ تاخیر ہوئی تو خیال کیا کہ عذاب تو آتا نہیں ہے، (جیسا کہ پیغمبر کی طرف سے دعویٰ ہو رہا ہے) اور نہ آتا نظر ہی آتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں سے بھی یوں ہی جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے۔ مطلب نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دینا ہے کہ آپ کی قوم پر عذاب میں جو تاخیر ہو رہی ہے، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلی قوموں پر بھی عذاب میں بڑی بڑی تاخیر روا رکھی گئی ہے اور اللہ کی مشیت و حکمت کے مطابق انہیں خوب خوب مہلت دی گئی حتیٰ کہ رسول اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہوگئے اور لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ شاید انہیں عذاب کا یوں ہی جھوٹ موٹ کہہ دیا گیا ہے۔ 3- اس میں دراصل اللہ تعالٰی کے اس قانون مہلت کا بیان ہے، جو وہ نافرمانوں کو دیتا ہے، حتیٰ کہ اس بارے میں وہ اپنے پیغمبروں کی خواہش کے برعکس بھی زیادہ سے زیادہ مہلت عطا کرتا ہے، جلدی نہیں کرتا، یہاں تک کہ بعض دفعہ پیغمبر کے ماننے والے بھی عذاب سے مایوس ہو کر یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ان سے یوں ہی جھوٹ موٹ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ محض ایسے وسوسے کا پیدا ہو جانا ایمان کے منافی نہیں ہے۔ 4- یہ نجات پانے والے اہل ایمان ہی ہوتے تھے۔