ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
یہ غیب کی خبریں (٨٨) ہیں، جنہیں ہم آپ کو بذریعہ وحی بتا رہے ہیں، اور جب وہ بطور سازش اپنے ارادے پر متفق ہورہے تھے تو آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے۔
1- یعنی یوسف (عليہ السلام) کے ساتھ، جب کہ انہیں کنوئیں میں پھینک آئے یا مراد حضرت یعقوب (عليہ السلام) ہیں یعنی ان کو یہ کہہ کر کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے اور یہ اس کی قمیص ہے، جو خون میں لت پت ہے ان کے ساتھ فریب کیا گیا۔ اللہ تعالٰی نے اس مقام پر بھی اس بات کی نفی فرمائی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کو غیب کا علم تھا لیکن یہ نفی مطلق علم کی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو آگاہ فرما دیا۔ یہ نفی مشاہدے کی ہے کہ اس وقت آپ وہاں موجود نہیں تھے۔ اسی طرح ایسے لوگوں سے بھی آپ کا رابطہ و تعلق نہیں رہا ہے جن سے آپ نے سنا ہو۔ یہ صرف اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں اور اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ کو وحی نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے اور بھی کئی مقامات پر اسی طرح غیب اور مشاہدے کی نفی فرمائی ہے۔ (مثلاً ملاحظہ ہو سورہ آل عمران:7، 44، القصص:46-45، سورۂ ص:70۔69)۔