سورة یوسف - آیت 65

وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ۖ هَٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا (٥٧) تو دیکھا کہ ان کی رقم انہیں واپس کردی گئی ہے انہوں نے کہا، اے ابا ! ہمیں کیا چاہیے یہ ہماری پونجی ہمیں لوٹا دی گئی ہے، اور اپنے گھر والوں کے لیے غلہ حاصل کریں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کے بوجھ برابر غلہ بھی زیادہ ملے گا، جو تھوڑا ہی ہے (بادشاہ پر گراں نہیں گزرے گا)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی بادشاہ کے اس حسن سلوک کے بعد، کہ اس نے ہماری خاطر تواضع بھی خوب کی اور ہماری پونجی بھی واپس کر دی، اور ہمیں کیا چاہیئے۔ 2- کیونکہ فی کس ایک اونٹ جتنا بوجھ اٹھا سکتا تھا، غلہ دیا جاتا تھا، بنیامین کی وجہ سے ایک اونٹ کے بوجھ بھر غلہ مزید ملتا۔ 3- اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بادشاہ کے لئے ایک بار شتر غلہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، آسان ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ ذَلِك کا اشارہ اس غلے کی طرف ہے جو ساتھ لائے تھے۔ اور يَسِيرٌ بمعنی قَلِيلٍ ہے یعنی جو غلہ ہم ساتھ لائے ہیں قلیل ہے بنیامین کے ساتھ جانے سے ہمیں کچھ غلہ اور مل جائے گا تو اچھی ہی بات ہے ہماری ضرورت زیادہ بہتر طریقے سے پوری ہو سکے گی۔