وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور میں اپنے آپ کو خطاؤں سے پاک نہیں بتاتا ہوں (٤٧) بیشک انسان کا نفس برائی پر بہت زیادہ ابھارتا ہے، سوائے اس نفس کے جس پر میرا رب رحم کرے، بیشک میرا رب بڑا مغفرت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔
1- اسے اگر حضرت یوسف (عليہ السلام) کا قول تسلیم کیا جائے تو بطور کسر نفسی کے ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہو چکی تھی۔ اور اگر یہ عزیزہ مصر کا قول ہے (جیسا کہ امام ابن کثیر کا خیال ہے) تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اپنے گناہ کا اور یوسف (عليہ السلام) کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کر لیا۔ 2- یہ اس نے اپنی غلطی کی توجیہ یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ برائی پر ابھارتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔ 3- یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو، جیسا کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کو اللہ تعالٰی نے بچا لیا۔