فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
پس جب وہ لوگ اسے لے گئے اور طے کرلیا کہ اسے اندھے کنویں (١٥) میں ڈال دیں گے ( تو انہوں نے ایسا ہی کیا) اور ہم نے یوسف پر وحی نازل کی کہ آپ انہیں (ایک دن) ان کی اس سازش کے بارے میں بتائیں گے حالانکہ وہ بے خبر ہوں گے۔
1- قرآن کریم نہایت اختصار کے ساتھ واقعہ بیان کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اپنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق انہوں نے یوسف (عليہ السلام) کو کنویں میں پھینک دیا، تو اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف (عليہ السلام) کی تسلی اور حوصلے کے لئے وحی کی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تیری حفاظت ہی نہیں کریں گے بلکہ ایسے بلند مقام پر تجھے فائز کریں گے کہ یہ بھائی بھیک مانگتے ہوئے تیری خدمت میں حاضر ہونگے اور پھر تو انہیں بتائے گا کہ تم نے اپنے ایک بھائی کے ساتھ اس طرح سنگ دلانہ معاملہ کیا تھا، جسے سن کر وہ حیران اور پشیمان ہو جائیں گے۔ حضرت یوسف علیہ الاسلام اس وقت اگرچہ بچے تھے، لیکن جو بچے، نبوت پر سرفراز ہونے والے ہوں، ان پر بچپن میں بھی وحی آ جاتی ہےجیسے حضرت عیسیٰ ویحیٰی وغیرہم علیہم السلام پر آئی۔