قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
انہوں نے کہا، اے صالح ! اس سے پہلے ہم لوگ تم سے اچھی امیدیں (٤٩) وابستہ کیے ہوئے تھے، کیا تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے، اور ہم بیشک اس بات کی صداقت میں بہت بڑے شک میں مبتلا ہیں جس کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو۔
1- یعنی پیغمبر اپنی قوم میں چونکہ اخلاق وکردار اور امانت و دیانت میں ممتاز ہوتا ہے اس لئے قوم کی اس سے اچھی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے حضرت صالح (عليہ السلام) کی قوم نے بھی ان سے یہ کہا۔ لیکن دعوت توحید دیتے ہی ان کی امیدوں کا یہ مرکز، ان کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا اور اس دین میں شک کا اظہار کیا جس طرف حضرت صالح (عليہ السلام) انہیں بلا رہے تھے یعنی دین توحید۔