وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ
وہ کشتی انہیں لے کر پہاڑوں کے مانند موج میں چلنے لگی، اور نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی (٣٠) جو کشتی سے الگ کھڑا تھا، اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہوجاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہ جاؤ۔
1- یعنی جب زمین پر پانی تھا، حتٰی کے پہاڑ بھی پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، یہ کشتی حضرت نوح (عليہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو دامن میں سمیٹے، اللہ کے حکم سے اور اس کی حفاظت میں پہاڑ کی طرح رواں دواں تھی۔ ورنہ اتنے طوفانی پانی میں کشتی کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے؟ اسی لئے دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے اسے بطور احسان ذکر فرمایا: ﴿إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ 1- لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ﴾ (الحاقہ :12-11) ”جب پانی میں طغیانی آ گئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت اور یادگار بنا دیں اور تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں“۔ ﴿وَحَمَلْنَاهُ عَلَى ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِمَنْ كَانَ كُفِرَ﴾۔ (القمر: 13۔14) ”اور ہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی کشتی میں سوار کر لیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی بدلہ اسکی طرف سے جس کا کفر کیا گیا تھا“۔ 2- یہ حضرت نوح (عليہ السلام) کا چوتھا بیٹا تھا جس کا لقب کنعان اور نام 'یام' تھا، اسے حضرت نوح (عليہ السلام) نے دعوت دی کہ مسلمان ہو جا اور کافروں کے ساتھ شامل رہ کر غرق ہونے والوں میں سے مت ہو۔