وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور نوح نے کہا کہ تم لوگ اس کشتی میں سوار ہوجا (٢٩) اس کا چلنا اور رکنا اللہ کے نام سے ہے، بیشک میرا رب بڑا مغفرت کرنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔
1- یعنی اللہ ہی کے نام سے اس کا پانی کی سطح پر چلنا اور اسی کے نام پر اس کا ٹھہرنا ہے۔ اس سے ایک مقصد اہل ایمان کو تسلی اور حوصلہ دینا بھی تھا کہ بلا خوف و خطر کشتی میں سوار ہو جاؤ، اللہ تعالٰی ہی اس کشتی کا محافظ اور نگران ہے اسی کے حکم سے چلے گی اور اسی کے حکم سے ٹھہرے گی۔ جس طرح اللہ تعالٰی نے دوسرے مقام پر فرمایا کہ 'اے نوح! جب تو اور تیرے ساتھی کشتی میں آرام سے بیٹھ جائیں تو کہو ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ، وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ﴾ (المومنون: 28،29) ”سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی اور کہہ کہ اے میرے رب! مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر اتارنے والا ہے“۔ بعض علماء نے کشتی یا سواری پر بیٹھتے وقت ﴿بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا﴾ کا پڑھنا مستحب قرار دیا ہے، مگر حدیث سے ﴿سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ﴾ (الزخرف: 13) پڑھنا ثابت ہے۔