سورة البقرة - آیت 143

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور اس طرح ہم نے تمہیں اے مسلمانو ! ایک معتدل (٢٠٨) اور بہترین امت بنایا تاکہ تم لوگوں کے بارے میں گواہی (٢٠٩) دو، اور رسول تمہارے بارے میں گواہی دیں اور وہ قبلہ جس طرف آپ پہلے سے متوجہ ہوتے تھے، ہم نے اس لئے بنایا تھا تاکہ دیکھیں کہ کون ہمارے رسول کی اتباع کرتا ہے (٢١٠) اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور اسے قبول کرنا بہت ہی بھاری گذر رہا تھا، سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے ہدایت دی، اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارا سابق ایمان (وعمل) ضائع کردے، بے شک اللہ لوگوں کے لئے بہت ہی شفقت اور رحمت والا ہے

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* ﴿وَسَطٌ﴾ کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں، لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں اسی معنی میں اس کا استعمال ہوا ہے،یعنی جس طرح تمہیں سب سے بہتر قبلہ عطاکیاگیا ہے، اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا ہے اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے ﴿لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (سورۂ الحج۔78) ”رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔“ اس کی وضاحت بعض احادیث میں اس طرح آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا؟ وہ اثبات میں جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ کہیں گے ہاں محمد (ﷺ) اور ان کی امت، چنانچہ یہ امت گواہی دے گی۔ اس لئے اس کا ترجمہ عادل بھی کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ایک معنی وسط کے اعتدال کے بھی کئے گئے ہیں۔ یعنی امت معتدل یعنی افراط وتفریط سے پاک۔ یہ اسلام کی تعلیمات کے اعتبار سے ہے کہ اس میں اعتدال ہے، افراط وتفریط نہیں۔ ** یہ تحویل قبلہ کی ایک غرض بیان کی گئی ہے، مومنین صادقین تو رسول اللہ (ﷺ) کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہا کرتے تھے، اس لئے ان کے تو ادھر سے ادھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو عین نماز کی حالت میں جب کہ وہ رکوع میں تھے یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع ہی میں اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ یہ مسجد قبلتین (یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قبا میں بھی ہوا۔ ﴿لِنَعْلَمَ﴾ ”تاکہ ہم جان لیں“ اللہ کو تو پہلے بھی علم تھا، اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کردیں تاکہ لوگوں کے سامنےبھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہوجائیں (فتح القدیر) *** بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ (رضی الله عنہم) بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہوچکے تھے، یا ہم جتنے عرصے اس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں یہ ضائع ہوگئیں،یا شاید ان کا ثواب نہیں ملے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نمازیں ضائع نہیں ہوں گی، تمہیں پورا ثواب ملے گا۔ یہاں نماز کو ایمان سے تعبیر کرکے یہ بھی واضح کردیا کہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان تب ہی معتبر ہے جب نماز اور دیگر احکام الٰہی کی پابندی ہوگی۔