فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
پس اے نبی ! آپ پر جو وحی نازل ہوتی ہے اس کا بعض حصہ شاید آپ چھوڑ دیں گے اور اس سے شاید آپ تنگ دل ہورہے ہیں، ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتار دیا جاتا، یا اس کی تائید کے لیے کوئی فرشتہ (١١) کیوں نہیں آجاتا، آپ تو لوگوں کو اللہ کے عذاب سے صرف صرف ڈرانے والے ہیں، اور ہر چیز اللہ کے اختیار میں ہے۔
1- مشرکین نبی (ﷺ) کی بابت کہتے رہتے تھے کہ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ نازل کیوں نہیں ہوتا، یا اس کی طرف سے کوئی خزانہ کیوں نہیں اتار دیا جاتا، (الفرقان-18)ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا ”ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ آپ کی بابت جو باتیں کہتے ہیں“ ان سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔ (سورۃ الحجر:98) اس آیت میں انہی باتوں کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ شاید آپ کا سینہ تنگ ہو اور کچھ باتیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہیں اور وہ مشرکین پر گراں گزرتی ہیں ممکن ہے آپ وہ انہیں سنانا پسند نہ کریں آپ کا کام صرف انذار و تبلیغ ہے، وہ آپ ہر صورت میں کئے جائیں۔