تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
وہ ایک جماعت (٢٠٥) تھی جو گذر چکی، انہوں نے جو کچھ کمایا ان کے لیے ہے، اور تم نے جو کمایا تمہارے لیے، تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا
1-اس آیت میں پھر کسب وعمل کی اہمیت بیان فرما کر بزرگوں کی طرف انتساب یا ان پر اعتماد کو بےفائدہ قرار دیا گیا۔ کیوں کہ [ مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه ] (صحيح مسلم كتاب الذكر والدعاء باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن) ”جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔“ مطلب ہے کہ اسلاف کی نیکیوں سے تمہیں کوئی فائدہ اور ان کے گناہوں پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا، بلکہ ان کے عملوں کی بابت تم سے یا تمہارے عملوں کی بابت ان سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ (فاطر۔ 18) ﴿وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى﴾ (النجم۔39) ”کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی سعی اس نے کی۔“