وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر (٥٩) پار کرادیا، تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی میں آکر اور حد سے تجاوز کرتے ہوئے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو کہا، میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں اب فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
1- یعنی سمندر کو پھاڑ کر، اس میں خشک راستہ بنا دیا۔ (جس طرح کہ سورہ بقرہ آیت 50 میں گزرا اور مزید تفصیل سورہ شعراء میں آئے گی) اور تمہیں ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر پہنچا دیا۔ 2- یعنی اللہ کے حکم سے معجزانہ طریق پر بنے ہوئے خشک راستے پر، جس پر چل کر موسیٰ (عليہ السلام) اور ان کی قوم نے سمندر پار کیا تھا، فرعون اور اس کا لشکر بھی سمندر پار کرنے کی غرض سے چلنا شروع ہوگیا۔ مقصد یہ تھا کہ موسیٰ (عليہ السلام) بنی اسرائیل کو جو میری غلامی سے نجات دلانے کے لئے راتوں رات لے آیا تو اسے دوبارہ قید غلامی میں لایا جائے۔ جب فرعون اور اس کا لشکر، اس سمندری راستے میں داخل ہوگیا تو اللہ نے سمندر کو حسب سابق جاری ہو جانے کا حکم دے دیا۔ نتیجتاً فرعون سمیت سب کے سب غرق دریا ہوگئے۔