فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ
تو ان لوگوں نے انہیں جھٹلا دیا، پس ہم نے انہیں بچا لیا، اور ان لوگوں کو بھی جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، اور انہیں زمین کا وارث بنا دیا، اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا انہیں ڈبو دیا تو آپ دیکھ لیجیے کہ ان لوگوں کا کیسا انجام ہوا جنہیں پہلے ڈرایا گیا تھا۔
1- یعنی قوم نوح (عليہ السلام) نے تمام تر وعظ و نصیحت کے باوجود جھٹلانے کا راستہ نہیں چھوڑا چنانچہ اللہ تعالٰی نے حضرت نوح (عليہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو ایک کشتی میں بٹھا کر بچا لیا اور باقی سب کو حتٰی کہ حضرت نوح (عليہ السلام) کے ایک بیٹے کو بھی غرق کر دیا۔ 2- یعنی زمین میں ان سے بچنے والوں کو ان سے پہلے کے لوگوں کا جانشین بنایا۔ پھر انسانوں کی آئندہ نسل انہی لوگوں بالخصوص حضرت نوح (عليہ السلام) کے تین بیٹوں سے چلی، اسی لئے حضرت نوح (عليہ السلام) آدم ثانی کہا جاتا ہے۔