وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
اور آپ چاہے جس حال میں ہوں، اور قرآن کا جو حصہ تلاوت کریں، اور لوگو ! تم چاہے جو کام کرو، جب تم اس کی ابتدا کرتے ہو تو ہم تم سے باخبر (٤٦) رہتے ہیں، اور آپ کے رب سے زمین و آسمان میں ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں ہے، اور نہ اس سے کوئی چھوٹی اور نہ بڑی چیز ہے جو لوح محفوظ میں درج نہ ہو۔
1- اس آیت میں اللہ تعالٰی نے نبی (ﷺ) اور مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تمام مخلوقات کے احوال سے واقف ہے اور ہر لحظہ اور ہر گھڑی انسانوں پر اس کی نظر ہے۔ زمین آسمان کی کوئی بڑی چھوٹی چیز اس سے مخفی نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورۃ انعام، آیت 59 میں گزر چکا ہےکہ ”اسی کے پاس غیب کے خزانے ہیں، جنہیں وہی جانتا ہے، اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے، اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب مبین میں (لکھی ہوئی) ہے“ اسی طرح سورۂ انعام کی آیت 38، اور سورۂ ھود کی آیت 6 میں بھی اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ وہ آسمان اور زمین میں موجود اشیاء کی حرکتوں کو جانتا ہے تو انسان اور جنوں کی حرکات واعمال سے کیوں کر بے خبر رہ سکتا ہے جو اللہ کی عبادت کے مکلف اور مامور ہیں؟۔