سورة البقرة - آیت 135

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور انہوں نے کہا یہودی یا نصرانی ہوجاؤ، تاکہ راہ راست پر آجاؤ (اے میرے نبی) آپ کہہ دیجئے کہ ہم نے ابراہیم کی ملت کو اپنا لیا (١٩٧) ہے جنہوں نے تمام ادیانِ باطلہ کو چھوڑ کر، دین توحید کو قبول کرلیا تھا، اور جو مشرک (١٩٨) نہیں تھے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-یہودی، مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی، عیسائیت کی دعوت دیتے اور کہتے کہ ہدایت اسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہو ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا (یعنی الٰہ واحد کا پرستار اور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا) اور وہ مشرک نہیں تھا۔ جب کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی آمیزش موجود ہے۔ اور اب بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی شرک کے مظاہر عام ہیں، اسلام کی تعلیمات اگرچہ بحمداللہ قرآن وحدیث میں محفوظ ہیں، جن میں توحید کا تصور بالکل بےغبار اور نہایت واضح ہے، جس سے یہودیت، عیسائیت اور ثنویت (دو خداؤں کے قائل مذاہب) سے اسلام کا امتیاز نمایاں ہے لیکن مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اعمال وعقائد میں جو مشرکانہ اقدار وتصورات در آئے ہیں، اس نے اسلام کے امتیاز کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ کیوں کہ غیر مذاہب والوں کی دسترس براہ راست قرآن وحدیث تک تو نہیں ہوسکتی، وہ تو مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ کریں گے کہ اسلام میں اور دیگر مشرکانہ تصورات سے آلودہ مذاہب کے مابین تو کوئی امتیاز ہی نظر نہیں آتا۔ اگلی آیت میں ایمان کا معیار بتلایا جارہا ہے۔