وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ
اور جب ہم لوگوں کو کسی تکلیف کے بعد اپنے فضل و کرم کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اچانک ہماری آیتوں کے بارے میں مکر و فریب (٢٠) سے کام لینے لگتے ہیں، آپ کہیے کہ اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، ہمارے فرشتے تمہاری مکاریوں کو لکھ رہے ہیں۔
1- مصیبت کے بعد نعمت کا مطلب ہے۔ تنگی، قحط سالی اور آلام ومصائب کے بعد، رزق کی فروانی، اسباب معیشت کی ارزانی وغیرہ۔ 2- اس کا مطلب ہے کہ ہماری ان نعمتوں کی قدر اور ان پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یعنی ان کی وہ بری تدبیر ہے جو اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں اختیار کرتے ہیں۔ 3- یعنی اللہ کی تدبیر ان سے کہیں زیادہ تیز ہے جو وہ اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ان کا مواخذہ کرنے پر قادر ہے، وہ جب چاہے ان کی گرفت کر سکتا ہے، فوراً بھی اور اس کی حکمت تاخیر کا تقاضا کرنے والی ہو تو بعد میں بھی۔ مکر، عربی زبان میں خفیہ تدبیر اور حکمت عملی کو کہتے ہیں، جو اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ یہاں اللہ کی عقوبت اور گرفت کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔