رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور اے ہمارے رب، انہی میں سے ایک رسول (١٩١) ان کی ہدایت کے لیے مبعوث فرما، جو تیری آیتیں انہیں پڑھ کر سنائے، اور انہیں قرآن و سنت کی تعلیم دے، اور انہیں پاک کرے، بے شک تو بڑا زبردست اور حکمت والا ہے
1-یہ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی آخری دعا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کی اولاد میں سے حضرت محمد رسول (ﷺ) کو مبعوث فرمایا۔ اسی لئے نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔“ (الفتح الربانی، ج 20،ص181،189) 2- کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔ تلاوت آیات کے بعد تعلیم کتاب وحکمت کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی نفس تلاوت بھی مقصود اور باعث اجر وثواب ہے۔ تاہم اگر ان کا مفہوم ومطلب بھی سمجھ میں آتا جائے تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن اگر قرآن کا ترجمہ ومطلب نہیں آتا، تب بھی اس کی تلاوت میں کوتاہی جائز نہیں ہے۔ تلاوت بجائے خود ایک الگ اور نیک عمل ہے۔ تاہم اس کے مفاہیم اور مطالب سمجھنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ 3- تلاوت وتعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کے بعد آپ (ﷺ) کی بعثت کا یہ چوتھا مقصد ہے کہ انہیں شرک وتوہمات کی آلائشوں سے اور اخلاق وکردار کی کوتاہیوں سے پاک کریں۔