سورة التوبہ - آیت 122

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تمام ہی مومنین جہاد کے لیے چلے جائیں (٩٧) ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہر جماعت کے کچھ لوگ نکلیں، تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب اپنی قوم کے پاس واپس لوٹیں تو انہیں اللہ سے ڈرائیں تاکہ وہ برے کاموں سے پرہیز کریں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- بعض مفسرین کے نزدیک اس کا تعلق بھی حکم جہاد سے ہے۔ اور مطلب یہ کہ پچھلی آیت میں جب پیچھے رہنے والوں کے لئے سخت وعید اور لعنت ملامت بیان کی گئی تو صحابہ کرام (رضی الله عنہم) بڑے محتاط ہوگئے اور جب بھی جہاد کا مرحلہ آتا تو سب کے سب اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتے۔ آیت میں انہیں حکم دیا گیا ہر جہاد اس نوعیت کا نہیں ہوتا کہ جس میں ہر شخص کی شرکت ضروری ہو (جیسا کہ تبوک میں ضروری تھا) بلکہ گروہ کی ہی شرکت کافی ہے۔ ان کے نزدیک ”لِيَتَفَقَّهُوا“ کا مخاطب پیچھے رہ جانے ولاا طائفہ ہے۔ یعنی ایک گروہ جہاد پر چلا جائے ”وَتَبْقَى طَائِفَةٌ“ (یہ مخذوف ہوگا) اور ایک گروہ پیچھے رہے، جو دین کا علم حاصل کرے۔ اور جب مجاہدین واپس آئیں تو انہیں بھی احکام دین سے آگاہ کر کے انہیں ڈرائیں۔ دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں ہے بلکہ اس میں علم دین سیکھنے کی اہمیت کا بیان، اس کی ترغیب اور طریقے کی وضاحت ہے اور وہ یہ کہ ہر بڑی جماعت یا قبیلے میں سےکچھ لوگ دین کا کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنا گھربار چھوڑیں اور مدارس ومراکز علم میں جا کر اسے حاصل کریں اور پھر آکر اپنی قوم میں وعظ ونصیحت کریں۔ دین میں تفقہ حاصل کرنے کا مطلب اوامرونواہی کا علم حاصل کرنا ہے تاکہ اوامر الہی کو بجا لاسکے اور نواہی سے دامن کشاں رہے اور اپنی قوم کے اندر بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے۔